
دمشق میں شامی فوج کے اڈے پر اسرائیل کا فضائی حمل
شام کے دارالحکومت دمشق میں ایک فوجی اڈے پر موجود اسلحے کے ذخیرے کو اسرائیلی فضائی حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے جہاں مشتبہ طور پر کیمیائی ہتھیار رکھے گئے تھے۔
شام کے میڈیا کے مطابق اسرائیلی جنگی جہازوں نے فوجی تنصیبات پر میزائل داغے۔
ایک فوجی بیان کے مطابق اس کے دفاعی نظام نے پیشتر حملوں کو ناکام بنا دیا۔ تاہم مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
ایک نگراں ادارے کا کہنا ہے کہ جمرایہ میں گولہ بارود کے ایک ذخیرے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس مقام کے بارے میں مغربی ممالک کو شبہ تھا یہاں کیمیائی ہتھیار بنائے جاتے ہیں۔
اسرائیل جو یہ بات تسلیم کر چکا ہے کہ اس نے سنہ 2011 سے شام میں 100 سے زائد فضائی حملے کیے اس نے اس بارے میں تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اسرائیل کے زیادہ تر حملوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لبنانی شدت پسند تنظیم حزب اللہ تک ہتھیاروں کی ترسیل کو روکنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔
ایرانی حمایت یافتہ یہ گروہ سنہ 2006 سے اسرائیل کے ساتھ برسرِ پیکار ہے اور اس نے صدر بشار الاسد کی مدد کے لیے ہزاروں جنگجو شام بھجوائے۔
شامی فوج کے بیان کے مطابق اسرائیلی جنگی جہازوں نے لبنان کی فضائی حدود سے متعدد میزائل داغے۔
مسلح افواج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اگر اس طرح کے اشتعال انگیز حملے دوبارہ کیے گئے تو ان کے خطرناک نتائج کا ذمہ دار اسرائیل ہو گا۔‘
حملہ کا نشانہ بننے والا احاطے دمر کہلاتا ہے جہاں بیشتر فوجی تنصیبات تو ہیں لیکن یہ سائنسی تحقیقاتی ادارے ایس اسی آر سی کی ایک شاخ بھی ہے۔
ایک مغربی انٹیلیجنس ایجنسی نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ برس اس شاخ کے ساتھ ساتھ تین اور شاخوں نے کیمیائی ہتھیار بنائے۔
اسی ایس آر سی کی تشہیر شہری مقاصد کے لیے قائم تحقیقاتی ادارے کی ہے لیکن امریکہ کا الزام ہے کہ یہاں غیر روایتی ہتھیار بنائے جا رہے ہیں۔
بدھ کو کیے جانے والے اسرائیلی حملے شامی حکومت کی جانب سے کلورین بم گرائے جانے کے واقعات کی شکایت کے بعد کیے گئے ہیں۔
شامی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے لیکن اقوامِ متحدہ کے جرائم سے متعلق ماہرین نے اس صورتحال کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے۔