
پاکستان کا اقوام متحدہ کے امن دستوں میں شامل اہلکاروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے اقدامات کا مطالبہ
امن دستوں کے اہلکاروں کا تحفظ اور سلامتی اجتماعی ذمہ داری ہونی چاہیے ¾ملیحہ لودھی کا خطاب
نیویارک (این این آئی)پاکستان نے اقوام متحدہ کے امن دستوں میں شامل اہلکاروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن دستوں کے اہلکاروں کا تحفظ اور سلامتی اجتماعی ذمہ داری ہونی چاہیے۔یہ بات پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے عالمی ادارے کے امن مشنز کےلئے افرادی قوت فراہم کرنے والے ممالک کے اجلاس سے بطور شریک چیئرپرسن افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہی ۔ اپنے خطاب کے دوران انہوں نے گذشتہ سال کے دوران اقوام متحدہ کے امن مشنز میں شامل سکیورٹی اہلکاروں کی ریکارڈ اموات پر تشویش کا اظہار کیا۔ امن دستوں کے اہلکاروں کا تحفظ اور سلامتی اجتماعی ذمہ داری ہونی چاہیے جس کے لئے زمینی صورتحال، مینڈیٹ اور اس کے مطابق اقدامات کے حوالے سے مشترکہ اپروچ کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کے امن مشنز کےلئے افرادی قوت فراہم کرنے والے ممالک کا گروپ پاکستان اور مراکش نے گذشتہ سال قائم کیا تھا اور اس کا مقصد ان ممالک کے درمیان روابط کا فروغ اور سلامتی کے حوالہ سے سامنے آنے والے نئے چیلنجز پر مل کر غور کرنا تھا۔ پاکستانی مندوب نے اپنے خطاب میں اس رپورٹ کو بھی سراہا جو امن مشنز کے اہلکاروں کے تحفظ اور سلامتی کے حوالے سے ان اقدامات پر مبنی ہے جو حالیہ عرصہ میں کئے گئے۔ یہ رپورٹ برازیلی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کارلوس البرٹو ڈوس سانتوز کرز نے تیار کی ہے۔انہوں نے اس معاملہ پر تبادلہ خیال کے لئے ملاقات پر آمادگی پر اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل جین پیری لا کرکس کا بھی شکریہ ادا کیا۔ انڈر سیکرٹری جنرل جین پیری لا کرکس نے اس موقع پر اجلاس کے شرکاءکو بریفنگ بھی دی۔ انہوں نے دنیا بھر میں امن کے قیام کےلئے جانیں قربان کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں کو خراج عقیدت بھی پیش کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امن دستوں کے اہلکاروں کے تحفظ کے لئے ان کی تعیناتی سمیت تمام مراحل کےلئے بہترین منصوبہ بندی کی جائے اور ان کے لئے زیادہ سے زیادہ وسائل مختص کئے جائیں۔ اجلاس میں اقوام متحدہ کے امن دستوں کےلئے بڑے پیمانے پر افرادی قوت فراہم کرنے والے ممالک بشمول بنگلہ دیش، اٹلی، ایتھوپیا، یوروگوائے، سینیگال اور انڈونیشیا کے سفیروں نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران ہونے والے مباحثے میں چین، گویانا اور برکینا فاسو کے سفیروں نے بھی حصہ لیا۔