
(نقیب قتل کیس سپریم کورٹ کا راﺅانوار کو گرفتار نہ کرنےکا حکم ،جے آئی ٹی تشکیل
راو¿ انور کی حفاظتی ضمانت منظور،جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور آئی بی کا بریگیڈیر لیول کاآفیسر شامل ¾ ایک قابل افسر کا تعین عدالت خود کرےگی ¾عدالتی حکم
انصاف کا حصول مظلوم کا حق ، شہادت کے بغیر کسی کو مجرم نہیں کہہ سکتے،اسلام آباد پولیس راو¿ انوار کو سیکیورٹی فراہم کرے ¾عدالت عظمیٰ
اسلام آباد(آن لائن)سپریم کورٹ نے قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل سے متعلق ازخود نوٹس میں ایس ایس پی) ملیر راو¿ انور کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی ہے جبکہ ان کی گرفتاری عمل میں نہ لانے کی ہدایت دیتے ہوئے انہیں 16 فروری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔منگل کے روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کراچی میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، سماعت کے آغاز میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اللہ ڈنو خواجہ بھی عدالت میں پیش ہوئے اور سابق ایس ایس پی راو¿ انوار کی گرفتاری کے حوالے سے انہوں نے اپنا تفصیلی جواب بھی جمع کروایاآئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی رپورٹس بھی جمع عدالت میں جمع کروادی گئی ہیں، آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ آئی بی نے جواب میں کہا ہے کہ وہ اس کیس کو ہائی پروفائل کیس کے طور پر دیکھ رہے ہیں، راو¿ انوار کے موبائل کی لوکیشن ٹریس کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم آئی بی کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ واٹس ایپ کی لوکیشن ٹریس نہیں کی جاسکتی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سندھ پولیس کی تمام باتوں کے مطابق نتیجہ صفر ہے، ہر بار وقت دیا جاتا ہے تاہم اب لگتا ہے ہمیں ہی راو¿ انوار کو پکڑنا پڑے گا، راو¿ انوار کی جانب سے سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو ایک خط لکھا گیا تھا جسے چیف جسٹس نے عدالت میں پڑھ کر سنایا اور پولیس افسران سے استفسار کیا کہ کیا اس پر خط پر دستخط سابق ایس ایس پی ملیر کے ہیں، اے ڈی خواجہ کے ساتھ موجود دیگر افسران نے خط دیکھ کر عدالت کو بتایا کہ دستخط سابق ایس ایس پی ملیر کے ہی لگ رہے ہیں، نقیب اللہ قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے مقدمے میں نامزد سابق ایس ایس پی راو¿ انوار 16فروری کو جمعہ کو طلب کرلیا ¾عدالتی حکم کے مطابق جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور آئی بی کا بریگیڈیر لیول کاآفیسر شامل ہوگا جبکہ ایک قابل افسر کا تعین عدالت خود کرے گی ¾جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے تک راو¿ انوار کو گرفتار نہ کیا جائے اور اسلام آباد پولیس راو¿ انوار کو سیکیورٹی فراہم کرے۔ منگل کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نقیب قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔عدالت عظمیٰ نے انسپکٹر جنرل سندھ اے ڈی خواجہ، ڈائریکٹر جنرل فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ¾ سیکرٹری داخلہ، چاروں صوبائی ہوم سیکرٹریز، سیکرٹری اطلاعات اور چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو طلب کیا تھا۔دوسری جانب ڈی جی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور ڈی جی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کو بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا۔سماعت کے آغاز میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اللہ ڈنو خواجہ بھی عدالت میں پیش ہوئے اور سابق ایس ایس پی راو¿ انوار کی گرفتاری کے حوالے سے انہوں نے اپنا تفصیلی جواب بھی جمع کروایا۔جس پر عدالت عظمیٰ نے سندھ پولیس اور وفاقی دارالحکومت پولیس کو ہدایت جاری کی ہے کہ راو¿ انوار کو عدالت میں پیشی کے دوران گرفتار نہ کیا جائے۔راو¿ انوار کی جانب سے سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو ایک خط لکھا گیا تھا جسے چیف جسٹس نے عدالت میں پڑھ کر سنایا اور پولیس افسران سے استفسار کیا کہ کیا اس پر خط پر دستخط سابق ایس ایس پی ملیر کے ہیں۔اے ڈی خواجہ کے ساتھ موجود دیگر افسران نے خط دیکھ کر عدالت کو بتایا کہ دستخط سابق ایس ایس پی ملیر کے ہی لگ رہے ہیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ راو¿انوار پولیس سے حفاظتی ضمانت مانگیں تو فراہم کی جائے گی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح انصاف کا حصول مظلوم کا حق ہوتا ہے اسی طرح ظالم کو بھی یہ حق حاصل ہے، راو¿ انوار کو بھی انصاف ملنا چاہیے اور شہادت کے بغیر کسی کو مجرم نہیں کہہ سکتے، راو¿ انوار کی جانب سے لکھے گئے خط میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی کہ وہ بے گناہ ہیں اور اس معاملے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی جائے جو سکیورٹی ایجنسیز کے افسران پر مشتمل ہو اور اس میں سندھ کے علاوہ کسی اور صوبے کے افسران موجود ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ راو¿ انوار نے آئی ایس آئی، آئی بی، ملٹی انٹیلی جنس (ایم آئی) کو جے آئی ٹی میں شامل کرنے کی استدعا کی ہے، لیکن ایم آئی اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں اور آئی ایس آئی کا بھی تحقیقات کا تجربہ نہیں ہے ۔دوران سماعت نقیب اللہ محسود کے والد کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کو بھی کمرہ عدالت میں پڑھ کر سنایا گیا، خط میں نقیب اللہ محسود کے والد نے راو¿ انوار کی عدم گرفتاری پر جواب طلب کرتے ہوئے سوال کیا کہ آئی جی سندھ اب تک راو¿ انوار کو کیوں نہیں پکڑ سکے؟خط میں کہا گیا کہ ہمارے سکیورٹی ادارے جانتے ہیں کہ راو¿ انوار کہاں چھپے ہوئے ہیں، عوام سے اس کی گرفتاری کے لیے مدد مانگی جائے۔خط پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی سندھ کے مطابق سکیورٹی اداروں کی سپورٹ کے باوجود راو¿ انوار کو تلاش نہیں کیا جاسکا، راو¿ انوار کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان نے اس معاملے میں ایک نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے سابق ایس ایس پی ملیر کو 16 فروری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا، عدالتِ عظمیٰ نے سندھ پولیس اور وفاقی دارالحکومت پولیس کو ہدایت جاری کی ہے کہ راو¿ انوار کو عدالت میں پیشی کے موقع پر گرفتار نہ کیا جائے۔