بیرون ممالک 10 ہزار سے زائد پاکستانی نظر بند اور 6 ہزار پاکستانی قید ہیں سینٹ میں انکشاف

چیئرمین سینٹ کوٹہ سسٹم قانون سازی میںتاخیر پر حکومت پر برہم، بلوچستان عوام کوملازمتیں نہ دےکر دہشتگردی کی طرف دھکیلا جارہا ہے،اعظم موسیٰ خیل
فنڈز کی کمی ، مالاکنڈ ٹنل پر کام تاخیر کا شکار ¾ ایگزم بینک سے 7 کروڑ 80 لاکھ ڈالر لئے مزید 8 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کےلئے مذاکرات جاری ہیں، شیخ آفتاب
پاکستان ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے دنیا کے خطرناک ممالک میں ہے ¾مسئلے کا حل سوچنا پڑے گا ورنہ ہمارے شہر ختم ہو جائینگے ¾اراکین سینٹ
اسلام آباد (آن لائن) چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کوٹہ سسٹم کے ختم ہونے سے پیدا شدہ مسائل پر مناسب قانون سازی پر لیت و لعل سے کام لینے پر وفاقی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عرصہ تین سال سے زائد گزر چکا ہے کہہ کہہ کر تھک گئے مگر وفاقی حکومت تاحال قومی اسمبلی کی کمیٹی میں اس حوالے سے پھنسے بل کو نکالنے بارے سنجیدہ نہیں ہوئی۔ سابق وزیر قانون زاہد حامد اس بابت بھی لارے لگاتے رہے۔ قبل ازیں اس معاملے کی نشاندہی کرتے ہوئے سردا ر اعظم خان موسیٰ خیل نے ایوان بالا میں کہا کہ بلوچستان کی عوام کو گیس‘ پانی و ذخائر سمیت ملازمتوں کے حقوق نہ دےکر دہشت گردی کی طرف دھکیلا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حصے کے کوٹہ کی آسامیوں میں دیگر صوبائی حکومتیں لوگ بھرتی کررہی ہیں۔سینٹ کو بتایاگیا ہے کہ ¾ بیرون ملک مختلف ممالک میں 10 ہزار سے زائد پاکستانی نظر بند اور 6 ہزار پاکستانی قید ہیں ¾ 2016-17ءمیںسکول سے باہر رہ جانے والے بچوں کی تعداد کم ہو کر دو کروڑ 28 لاکھ پر آ گئی ہے ¾پہلے تعداد دو کروڑ 65لاکھ تھی ¾ مالاکنڈ ٹنل پر کام فنڈز کی کمی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے ¾ ایگزم بینک سے پہلے 7 کروڑ 80 لاکھ ڈالر لئے گئے، مزید 8 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کےلئے بات چیت ہو رہی ہے ۔ منگل کو سینٹ اجلا س میں وقفہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے سینیٹر احمد حسن کے سوال کے جواب میں بتایا کہ چکدرہ تا کالام روڈ 132 کلو میٹر کا منصوبہ ہے ¾اس کے قابل عمل ہونے کا مطالعہ جاری ہے۔ 22 فروری کو اس حوالے سے بورڈ اجلاس ہے جس میں اس کے پی سی ون کی منظوری ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام میں اس کے لئے 4 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ یہ 36 ماہ میں مکمل ہوگی۔ احمد حسن کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ مالاکنڈ ٹنل پر کام فنڈز کی کمی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔ مالاکنڈ درگئی 310 کلو میٹر شاہراہ پر دو ٹنل بنائے جا رہے ہیں۔ ایگزم بینک سے پہلے 7 کروڑ 80 لاکھ ڈالر لئے گئے، مزید 8 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے لئے بھی اسی بینک سے بات چیت ہو رہی ہے۔ رواں سال کے پی ایس ڈی پی میں 30 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ یہ منصوبہ 42 ماہ میں مکمل ہوگا۔ اس پر اگر کام رکا ہوا ہے تو قائمہ کمیٹی جا کر اس کو دیکھے۔ایک سوال کے جواب میں وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ حویلیاں ۔ مانسہرہ ایکسپریس وے سیکشن کی لمبائی 39.511 کلو میٹر ہے۔ ہر ایک سمت میں دو لینز ہیں۔ یہ پہاڑی راستہ ہے اس لئے سپیڈ لمٹ کم رکھی گئی ہے ¾2018ءمیں اس منصوبے کو مکمل کرلیا جائے گا۔ لینز کی تعداد کم کی گئی ہیں لیکن مزید لین بنانے کی گنجائش رکھی گئی ہے ¾اس پر انٹر چینجز کی تعداد تین ہے۔اجلاس کے دور ان وزیر برائے سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے بتایا کہ بیرون ملک محبوس یا نظر بند کئے گئے پاکستانیوں کی تعداد 10 ہزار 715 ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب میں 3087، یو اے ای میں 2710، بنگلہ دیش میں 40 اور ملائیشیا میں 226 پاکستانی محبوس یا نظر بند ہیں۔ اکثر کے خلاف زائد قیام کی شکایات ہیں۔سینیٹ کے اجلاس کے دوران تفصیلات پیش کرتے ہوئے بتایا گیاکہ بیرون ملک 6 ہزار سے زائد پاکستانی قید ہیں۔انہوں نے انکشاف کیا کہ سب سے زیادہ پاکستانی، سعودی عرب میں قید ہیں۔سینیٹ کو بتایا گیا کہ سعودی عرب میں 3 ہزار 87 پاکستانی قید میں ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں 2 ہزار 710 پاکستانی قید ہیں۔انہوں نے بتایا کہ بعض یورپی ممالک نظر بند ہونے والوں کی معلومات مہیا نہیں کرتے تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ بیرون ممالک میں نظر بند اور قید پاکستانیوں کو قانونی معاونت مہیا کردی گئی ہے۔شیریں رحمن نے اس موقع پر سندھ میں واٹر لیول گرنے کی نشاندہی کرتے ہوئے وفاق کو صوبوں کیلئے پانی سمیت ماحول کے تحفظ کیلئے مناسب فنڈز کے اجراءکا مطالبہ بھی کیا اس موقع پر سینیٹر عثمان کاکڑ نے چاغی دھماکوں سے بلوچستان کے ماحول پر پڑنے والے اثرات کی نشاندہی کرتے ہوئے بلوچستان کیلئے خصوصی فنڈز کا مطالبہ بھی دہرایا۔ ہیں، دوسرے ممالک قابل تجدید توانائی کی طرف جا رہے ہیں، سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ بدین بھی ماحولیاتی آلودگی سے بہت متاثر ہے، شہر اور دیہات سبھی مشکل میں ہے، اس مسئلے کا حل سوچنا پڑے گا ورنہ ہمارے شہر ختم ہو جائیں گے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ حکومت نے ماحولیات کے لئے صرف 80 کروڑ روپے رکھے ہیں اس میں سے بیشتر رقم تنخواہوں اور غیر ترقیاتی اخراجات میں چلی جاتی ہے۔ جنگلات کاٹے جا رہے ہیں ¾ ماحول دوست ہائیڈل پاور نہیں لگائے جا رہے۔ بلوچستان میں قحط کا سامان ہے، پانچ ہزار چشمے اور کاریز بلوچستان میں خشک ہو گئے ہیں۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ میڈیا کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کرنی چاہئے ¾ملک میں آبی ایمرجنسی کی ضرورت ہے۔ تمام جماعتوں کو مل بیٹھ کر اس سلسلے میں لائحہ عمل وضع کرنا چاہئے۔ ہم بے تحاشا پانی سمندر میں پھینک دیتے ہیں ¾بلوچستان میں نئے ڈیم بنائے جائیں۔ سینیٹر اے رحمان ملک نے کہا کہ ہمیں مستقبل کی ترجیحات کا تعین کرنا ہے ¾ ملک میں آلودگی کے خاتمے کے لئے ضروری قوانین موجود نہیں ہیں، رہائشی علاقوں میں فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ سینیٹ کے ارکان کو مل کر پارلیمان کے باہر درخت لگانے چاہئیں اور گرین ڈے منانا چاہئے۔ شبلی فراز نے کہا کہ شیری رحمان نے بہت اہم معاملہ اٹھایا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے جس طرح بلین ٹری کا منصوبہ شروع کیا اس طرح کے منصوبے دوسرے صوبوں میں بھی شروع ہونے چاہئیں۔عوامی اہمیت کے معاملہ پر بات کرتے ہوئے سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ایوی ایشن ڈویژن کے مشیر نے کہا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری نہیں کی جائےگی تاہم اب نجکاری کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ شاید اس ایوان میں درست معلومات فراہم نہیں کی گئیں، چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اس حوالے سے آپ کا توجہ مبذول نوٹس ایک دو دن میں ایجنڈے پر آ جائے گا۔سینیٹر خالدہ پروین نے مطالبہ کیا کہ گنے کے کاشتکاروں کا مسئلہ حل کیا جائے جنوبی پنجاب کے کاشتکاروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور وہ بروکرز کے ہاتھوں گنا فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ کاشتکاروں کو ان کا حق دلایا جائے اور چھوٹی شوگر ملیں لگانے کی اجازت دی جائے، فاٹا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ہدایت اﷲ نے کہا ہے کہ سندھ حکومت کراچی میں فاٹا کے نوجوانوں کے قتل کا نوٹس لے، فاٹا کے نوجوانوں کو جس کا تعلق میرے علاقے سے تھا، کراچی میں قتل کیا گیا۔ وہ تعلیم کے لئے کراچی گیا ہوا تھا۔ فاٹا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ہدایت اﷲ نے عوامی اہمیت کے معاملہ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فاٹا کے نوجوانوں کو جس کا تعلق میرے علاقے سے تھا، کراچی میں قتل کیا گیا۔ وہ تعلیم کے لئے کراچی گیا ہوا تھا۔ سندھ کی حکومت اس واقعہ کا نوٹس لے۔سینیٹر خالدہ پروین نے مطالبہ کیا کہ گنے کے کاشتکاروں کا مسئلہ حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے کاشتکاروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور وہ بروکرز کے ہاتھوں گنا فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ کاشتکاروں کو ان کا حق دلایا جائے اور چھوٹی شوگر ملیں لگانے کی اجازت دی جائے۔بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس (آج) بدھ کو سہ پہر ساڑھے تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
سینٹ

Comments
Loading...