
میمو گیٹ کیس: سپریم کورٹ کا اب تک کی پیش رفت پر عدم اطمینان کا اظہار
اسلام آباد: سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے خلاف میموگیٹ کیس کی سماعت کے دوران اب تک کی پیش رفت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سیکریٹری خارجہ اور سیکریٹری داخلہ کو کل (28 مارچ) طلب کرلیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے میمو گیٹ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ ‘حسین حقانی کی گرفتاری سے متعلق کیا پیشرفت ہوئی؟’
حکام نے آگاہ کیا کہ ‘وزارت خزانہ سے کوئی جواب نہیں ملا جبکہ وزارت خارجہ نے کچھ پیشرفت کی ہے’۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘یہ معاملہ زیادہ لمبا نہیں ہوگیا؟ بتایا جا رہا ہے کہ وزارت خارجہ کی اپنی حدود ہیں، یہ حدود کیا ہیں؟’
حکام نے بتایا کہ ‘وزارت خارجہ کو ایک بیگ ملنا ہے، جس میں دستاویزات ہوں گی’۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ‘کل وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ تشریف لے آئیں، یہ دو ہی وزارتیں کیس سے متعلق ہیں’۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ ‘یہ پاکستان کی عزت کا معاملہ ہے، ایک آدمی انڈر ٹیکنگ دے کر بھاگ گیا ہے، اب یہ اس عدالت کی بھی عزت کا معاملہ ہے’۔
عدالت عظمیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار سے استفسار کیا کہ ‘بتایا جائے امریکا میں موجود حسین حقانی کو کب تک گرفتار کرکے لایا جائے گا؟’
چیف جسٹس نے میموگیٹ اسکینڈل میں اب تک کی پیشرفت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘کیس میں اب تک جو ہوا وہ صرف نظر کا دھوکا ہے’۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ‘میموگیٹ اسکینڈل میں تحقیقات ہو رہی ہیں اور ایف آئی آر کا اندراج بھی ہوچکا ہے’۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ‘میموگیٹ اسکینڈل میں ایف آئی آر سے متعلق صرف ایک اسٹیپ لیا گیا ہے، ہم سمجھ رہے تھے وارنٹ بھی جاری ہوگئے ہوں گے’۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے آگاہ کیا کہ ‘ہم انٹرپول سے دوبارہ رابطہ کریں گے، کچھ دستاویزات واشنگٹن میں ہیں اس لیے تحقیقات مکمل نہ ہوسکیں’۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا پر وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کو نہ بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔
رانا وقار نے کہا کہ ‘سیکریٹریز کے پاس زیادہ معلومات ہوتی ہیں’۔
جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے دونوں وفاقی سیکریٹریز کی طلبی کے نوٹس جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حق رائے دہی کے حوالے سے ایک کیس کی سماعت کے دوران میموگیٹ کیس کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ حسین حقانی وطن واپس آکر میمو گیٹ کاسامنا کریں۔
بعدازاں رواں برس 2 فروری کو چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ تشکیل دیتے ہوئے میموگیٹ کیس کو سماعت کے لیے مقرر کردیا۔
تاہم 5 فروری کو اپنے ایک بیان میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے میمو گیٹ کیس دوبارہ کھولے جانے کو ‘سیاسی تماشہ’ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے بعد 4 چیف جسٹس آئے، کسی نےکیس کو ہاتھ نہیں لگایا’۔
مذکورہ کیس کی 15 فروری کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے حلف کی خلاف ورزی پر امریکا میں مقیم سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے تھے۔
میمو گیٹ اسکینڈل کیا ہے؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں اُس وقت امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی کا ایک مبینہ خط (میمو) سامنے آیا تھا۔
حسین حقانی کی جانب سے بھیجے جانے والے میمو میں مبینہ طور پر یہ کہا گیا تھا کہ ایبٹ آباد میں القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر امریکی حملے کے بعد ممکن ہے کہ پاکستان میں فوجی بغاوت ہوجائے۔
میمو گیٹ میں اُس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے امریکا سے معاونت مانگی گئی تھی تاکہ حکومت ملٹری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قابو میں رکھ سکے۔
اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن بنایا گیا تھا جس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ مذکورہ میمو درست ہے اور اسے امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔
کمیشن نے کہا تھا کہ میمو لکھنے کا مقصد امریکی حکام کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ پاکستان کی سول حکومت امریکا کی حامی ہے۔
اس معاملے کو اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر نواز شریف سپریم کورٹ میں لے کر گئے تھے جس کے بعد حکومت نے حسین حقانی سے استعفیٰ لے لیا تھا اور وہ تب سے بیرون ملک مقیم ہیں۔