تعمیراتی شعبے نے فکسڈ ٹیکس ریجیم کی بحالی کامطالبہ کردیا

 کراچی: 

 تعمیراتی شعبے میں کاروبار کوآسان اورپاکستان کی بین الاقوامی درجہ بندی بہتر بنانے کے لیے مالی سال2018-19 کے وفاقی بجٹ میں اس شعبے کے لیے فکسڈ ٹیکس ریجیم کو بحال کیاجائے۔

 

ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کی جانب سے ایف بی آر کوارسال کردہ بجٹ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ یکم جولائی 2018 سے منظور ہونے والے تعمیراتی منصوبوں کے لیے ایف ٹی آر لازمی جبکہ مذکورہ تاریخ سے قبل کے منظور شدہ تعمیراتی منصوبوں کے لیے بلڈرز اور ڈیولپرز کو اختیار حاصل ہونا چاہیے کہ وہ موجودہ ٹیکس نظام کے ذریعے یا ایف ٹی آر کے ذریعے ٹیکس ادا کرنا چاہتے ہیں۔ تجاویز میں کہا گیاکہ بیرون ممالک مقیم اور مقامی پاکستانیوں سے پہلے یونٹ کی خریداری پر پیسے کے ذرائع نہ پوچھیں جائیں اور یہ سہولت اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کی طرح کم از کم 3 برس تک ہونی چاہیے۔

کم لاگت جائیدادوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ 40 لاکھ سے بڑھا کر 80 لاکھ روپے کی جائے، تعمیراتی صنعت کو محفوظ بنانے کے لیے سریا پر نافذ آر ڈی اور اضافی آر ڈی ختم کی جائے جس کے نتیجے میں تعمیراتی لاگت 15 فیصد کم ہوگی، وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل بیٹھ کر ایک ویلیوایشن میزانیہ تشکیل دیں اور اس کے ساتھ جائیداد کی اصل قدر پر منتقلی کے وفاقی اور صوبائی ٹیکسوں میں کمی کی جائے اور اس نظام کو ابتدائی طور پر اسلام آباد میں نافذ کیا جاسکتا ہے، انتظامیہ،آباد،ایف بی آر اور دیگر اسٹیک ہولڈرز مشترکہ طور پر ورکنگ گروپ تشکیل دیں جو ان ماڈیلیٹیز پر کام کرکے اسے وفاقی بجٹ 2018 میں نافذ کرسکے۔

وفاقی حکومت ود ہولڈنگ ٹیکس،ایڈوانس ٹیکس اور گین ٹیکس کی مد میں خریدار اور فروخت کنندہ سے 3 تا 8 فیصد کے بجائے مجموعی طور پر 1فیصد ٹیکس وصول کرے جبکہ پراپرٹی ٹرانسفر ٹیکس 3 سے 8 فیصد یا اصل مارکیٹ ویلیو کے ایک فیصد(جو بھی زیادہ ہو) لیاجائے، صوبائی اور مقامی حکومتوں کا مجموعی ٹیکس مثلاً اسٹیمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن چارجز،کیپٹل ویلیو ٹیکس ٹاؤن ٹیکس مجموعی طور پر سیل ڈیڈ کے 1 فیصد سے زیادہ نہ ہوں، صوبائی حکومت ڈی سی ویلیو کے تحت 7.5 فیصد یا اصل مارکیٹ ویلیو کے 1 فیصد جو زیادہ ہو وصول کرسکتی ہے، کم لاگت رہائشی یونٹس کے لیے تعمیراتی مشینری اور مٹیریل کی درآمدات کی اجازت دی جائے۔

Comments
Loading...