
عدالتی اصلاحات بارے اپیل :سپریم کورٹ نے وفاق سے جواب طلب کرلیا
اصلاحات کےلئے قانون سازی ناگزیر لیکن قانون سازی کرنا ہمارا کام نہیں ، قانون سازی کرنا جن کا کام ہے اس میں ہم مداخلت نہیں کرسکتے، چیف جسٹس
گنے کی قیمت سے متعلق کمیشن بنانے پر پابندی لگا دی ¾ معاملے کا مل بیٹھ کر حل نکالنے کی ہدایت ، ڈاکو اور ملزمان پکڑنا ہی پولیس کا کام ہے ،جسٹس اعجاز الاحسن
اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ نے عدالتی اصلاحات سے متعلق اپیل پر وفاق سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت تین ہفتے کے لیے ملتوی کردی ہے جبکہ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ میں اصلاحات کے لیے قانون سازی ناگزیر ہے لیکن قانون سازی کرنا ہمارا کام نہیں ہے، قانون سازی کرنا جن کا کام ہے اس میں ہم مداخلت نہیں کرسکتے ۔پیر کے روز عدالتی اصلاحات سے متعلق درخواست پر سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی، دوران سماعت چیف جسٹس نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نہیں چاہتے میں یہ کیس سنو،جس پر درخواست گزار نے کہا کہ میری ایسی قطعی نیت نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے لائ ایںنڈ جسٹس کمیشن کو فریق بنایا ہےکمیشن کا میں چیئرمین ہو، چیئرمین ہونے کے ناطے میں کیسے یہ مقدمہ سن سکتا ہوں، درخواست گزار نے کہا کہ لائ اینڈ جسٹس کمیشن کا نام فریق سے نکال دیں، چیف جسٹس کے بینچ کا مقدمہ سننا باعث مسرت ہو گا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواس نظام انصاف سے متعلق ہے، عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے جس کے لیے قانون سازی نا گزیر ہے، لیکن قانون سازی کرنا ہمارا کام نہیں ہے، قانون سازی کرنا جن کا کام ہے اس میں ہم مداخلت نہیں کر سکتے،کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو خود سے بہتر کی جا سکتی ہیں،بعد ازاں عدالت نے درحواست پر وفاق سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔ایک دوسرے کیس میں سپریم کورٹ میں پنجاب پولیس کے افسران کی آوٹ آف ٹرن پروموشن سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کسی دوسری فورس میں بہادری دیکھانے پر ترقی نہیں ملتی ، فوج میں ترقی میرٹ پر ہی ہوتی ہے ۔ پیر کے روز سپریم کورٹ نے پولیس افسران کی آوٹ آف ٹرن ترقیوں سے متعلق درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی ،دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ڈاکو اور ملزمان پکڑنا ہی پولیس کا کام ہے،کسی دوسری فورس میں بہادری دیکھانے پر ترقی نہیں ملتی، فوج میں ترقی میرٹ پر ہی ہوتی ہے،ستارہ امتیاز بھی ایک ایوارڈ ہی ہوتا ہے ، پولیس افسران کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کئی درخواست گزار افسران کے جسم گولیوں سے چھلنی ہوئے ،سندھ کی بنیاد پر پنجاب میں ترقیاں کالعدم قرار دی گئیں ، بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج منگل تک ملتوی کردی ہے ۔دریں اثناءسپریم کورٹ میں گنے کی خریداری سے متعلق کیس کی سماعت میں عدالت نے کمیشن بنانے پر پابندی لگاتے ہوئے معاملے کا مل بیٹھ کر حل نکالنے کی ہدایت کردی۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے گنے کی خریداری سے متعلق کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران کسان اتحاد کے وکیل احسن بوند جبکہ جہانگیر ترین کے وکیل اعتزاز احسن پیش ہوئے۔سماعت کے دوران کسان اتحاد کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ اس معاملے پر ہائی کورٹ کے ججز پر مشتمل ایک کمیشن بنایا جائے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہائی کورٹ کے ججز کا کمیشن ان کی توہین ہے اور یہ معاملہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے پاس ہونا چاہیے۔سماعت کے دوران وکیل کسان اتحاد نے بتایا کہ شوگر کرشنگ کے 150 دن ہوتے ہیں اور30 اپریل تک کرشنگ ہو سکتی ہے اور ا یک لاکھ 97 ہزار ایکڑ پر کھڑا گنا کرش ہو سکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ2 لاکھ 94 ہزار ایکڑ پر گنا کھیتوں میں باقی ہے جبکہ 30 اپریل تک 1 لاکھ 83 ہزار ایکڑ گنا باقی رہ جائے گا اور یہ اعداد و شمار ایک ضلع کی حد تک ہیں اور 17 ارب روپے کا گنا ضلع رحیم یار خان میں ہے۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسانوں کو گنا لگانے کےلئے کس نے کہا تھا ¾دوسری شوگر ملز تو وہاں کام نہیں کررہی تھی جبکہ شوگر ملز کی غیر قانونی قیام کا کیس زیر التوا تھا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ گنا زیادہ کاشت کرلیا گیا تو اس میں شوگر ملز کا کیا قصور ہے جس پر وکیل کسان اتحاد کا کہنا تھا کہ شوگر مل والے قرض دیتے ہیں تو شوگر ملز کی یقین دہانی پر کسان گنا کاشت کرتے ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ جو شوگر ملز بند ہیں وہی یہ مسائل پیدا کررہی ہوں تاہم جو شوگر ملز بند ہیں وہ نہیں کھلیں گی، یہ شوگر ملز عدالتی حکم پر بند ہیں اور عدالتی حکم کا احترام ہونا چاہیے۔عدالت میں سماعت کے دوران وکیل کسان اتحاد نے بتایا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ کسان کسی کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں ¾مزید شوگر مل لگنے سے کسانوں نے زیادہ گنا کاشت کر لیا اور جب تک کھیت میں گنے کی فصل لگی رہے گی کسان نئی فصل کی بوائی نہی کر پائے گا۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ گنے کا وزن بھی رکھے رکھے کم ہورہا ہے ¾ہم چاہتے ہیں کہ شوگر مل والے کھڑی فصل کے پیسے دے دیں پھر وہ جب مرضی گنا اٹھا لیںجس پر چیف جسٹس نے وکیل کسان اتحاد سے کہا کہ بند شوگر ملز کو کھولنے کا کوئی جواز نہیں اس حوالے سے حکم امتناع کی درخواست پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں۔سماعت کے دوران جسٹس میاں ثاقب ثنار نے ریمارکس دئیے کہ کسان کے مفاد کے لیے ہم بیٹھے ہیں، بند شوگر ملز کو کھولے بغیر مسئلہ کیسے حل ہوگا، ہمیں اس کا حل بتا دیں۔اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ صوبہ پنجاب میں 180 کا نرخ کوئی شوگر مل نہیں دے رہی ¾کس جگہ کسان کو 140 تو کسی جگہ 120 کا نرخ مل رہا ہے۔سماعت کے دوران گنا فصل کشمنر نے بھی عدالت میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 17 جنوری کو شوگر مل والوں سے ملاقات ہوئی تھی اور 4 اضلاع کے کمشنر سے رپورٹ بھی طلب کی تھی۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 3600 پرمٹ شوگر ملز نے روزانہ کی بنیاد پر جاری کرنے تھے لیکن شوگر ملز نے اس پر یقین دہانی پوری نہیں کی جس پر جہانگیر ترین کے وکیل اعتراز احسن نے دلائل دیے کہ ہم اپنی یقین دیانی پر قائم ہیں اور ہم کسانوں سے گنا خریدیں گے۔انہوں نے کہا کہ 5 شوگر ملز کی جانب سے گنا خریدنے کی تفصیل ہماری رپورٹ میں موجود ہے۔اعتزاز احسن کے دلائل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یقین دہانی کی پابندی شوگر ملز پر لازم ہے، دیکھنا یہ ہے کہ عدالتی یقین دہانی پر عمل کیسے ہوگا۔سماعت کے دوران وکیل کسان اتحاد نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین اسلام آباد میں بیٹھ کر ڈہرکی شوگر مل کے پرمٹ جاری کر رہے ہیں جبکہ اس شوگر مل تک گنا پہنچانے کا خرچہ کسان کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے عدالت اپنے کسی جوڈیشیل آفیسر سے رپورٹ منگوالیں، حقائق عدالت کے سامنے آجائیں گے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسانوں کے مسائل سے آگاہ ہیں، انہیں نقصان نہیں ہونے دیں گے، ہوسکتا ہے معاملے کی نگرانے کے لئے واچ باڈی بنا دیں لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کہیں درمیان میں سیاست تو نہیں ہورہی۔اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ کسان سے گنا خریدنے کا کلیکشن پوائنٹ ان کے گاو¿ں کے پاس ہونا چاہیے، ویسے بھی پاکستان میں چینی کی قیمت زیادہ ہے اور پاکستان اپنی چینی دیگر ممالک میں برآمد نہیں کرسکتا۔سماعت کے دوران عدالت میں ایڈیشنل کین کمشنر بھی پیش ہوئے، جس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ پنجاب میں طاقت ور کون ہے؟ایڈیشنل کین کمشنر نے جواب دیا کہ آپ طاقت ور ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کہاں طاقت ور ہیں، ہم تو کمزور ہیں اور ہم پوچھ رہے ہیں کہ پنجاب میں طاقتور کون ہے؟ایڈیشنل کین کمشنر نے چیف جسٹس کو بتایا کہ پنجاب میں عوام طاقتور ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں عدالت اپنے احکامات کی نگرانی خود کرے گی، اس حوالے سے ایڈیشنل کین کمشنر شوگر ملز کی رپورٹ پیش کریں۔اس موقع پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور اعتزاز احسن کے درمیان مکالمہ بھی ہوا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو جو یقین دہانی کروائی گئی ہے اس پر عمل ہونا چاہیے، اگر آپ کی شوگر مل بکتی ہے یا دیوالیہ ہوتی ہے تو اس میں کسانوں کا نقصان نہیں ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو کروائی گئی یقین دہانی پر عمل نہ ہوا تو اس کے نتائج بھی ہوں گے، معاملہ باہمی بات چیت سے حل ہوسکتا ہے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ تمام متعلقہ فریقین اعتزاز احسن کے دفتر میں ملاقات کریں اور اس میں کین کمشنر بھی موجود ہوں اور شوگر ملز اور کسان اپنی اپنی تجاویز دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل جہانگیر ترین اور وکیل کسان بیٹھ جائیں اور مسئلے کاحل نکالیں، دونوں کی تجاویز کا جائزہ لے کر مناسب حکم جاری کریں گے اور کسان کو حکومت کی مقرر کردہ قیمت ملے گی۔