بالی وڈ ڈائری: انڈیا میں ایک بار پھر پاکستانی فنکاروں پر پابندی کا موسم

بالی وڈ میں جس طرح انڈیا اور پاکستان کے درمیان محبت اور نفرت پر فلموں کا فارمولہ ہٹ ہے اسی طرح انڈسٹری میں اب کچھ فنکاروں کے بھیس میں موجود سیاسی مہرے بھی پاکستان پاکستان کھیلنے لگے ہیں جو موجودہ حکومت کا بھی فیورٹ موضوع ہے اور یوں کچھ درباری فنکار موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی فنکاروں پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔

بابل سوپریو یوں تو ایک پلے بیک سنگر رہ چکے ہیں لیکن ساتھ ہی انھوں نے کئی ٹی وی شوز کی میزبانی کی ہے۔ اداکاری میں بھی ہاتھ آزمائے اور اب عوام کی خدمت کر رہے ہیں یعنی اب وہ بی جے پی کی حکومت میں مرکزی وزیر ہیں۔

آج کل ان کے دل میں اچانک انڈین فوجیوں کا درد بھر آیا ہے۔ بابل کہتے ہیں ‘پاکستان سرحد پر ہمارے فوجیوں کو گولیوں سے نشانہ بناتا ہے اس لیے ہمیں بھی ان کے فنکاروں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔

فی الحال پاکستانی سنگر راحت فتح علی خان ان کے نشانے پر ہیں جنھوں نے فلم ‘ویلکم ٹو نیو یارک’ میں ایک نغمہ گایا ہے۔ ہدایت کار شمیر ٹنڈن نے راحت فتح علی خان سے گانا ریکارڈ کرانے کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئِے کہا کہ اس معاملے میں صرف انھیں ہی نشانہ نہ بنایا جائے اگر پوری انڈسٹری پاکستانی فنکاروں سے کام نہ لینے کا فیصلہ کرتی ہے تو وہ اس فیصلے کو تسلیم کریں گے۔

انڈین فلم اور ٹیلی وژن پروڈیوسرز کونسل کے چیئرمین سریش امین کا کہنا ہے کہ کونسل ہندی فلموں میں پاکستانی فنکاروں کے ساتھ کام کرنے پر دو سال کے لیے پابندی لگانے پر بات کر رہی ہے۔ انڈیا میں اگلے سال عام انتخابات ہونے ہیں اور ایسے میں کئی بابل سوپریو سامنے آئیں گے۔

سلمان خان کا کہنا ہے کہ بطور ایکٹر اصل زندگی میں وہ مایوس، اداس یا جذباتی نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کا کام ہی ایسا ہے کہ انھیں ہمیشہ خوبصورت، خوش لباس اور سٹائلش لگنا ہوتا ہے۔ کبھی رومانس کرنا پڑتا ہے تو کبھی ایکشن اب چاہے آپ کی اپنی زندگی میں کتنے ہی طوفان آئیں، کتنی ہی پریشانیاں یا دشواریاں ہوں کیمرے کے سامنے آتے ہی آپ آپ نہیں ہوتے۔

سلمان کہتے ہیں کہ اپنی زندگی میں وہ کیس کے سلسلے میں دن میں عدالت میں ہوتے ہیں تو شام کو بگ باس میں ہنستے بولتے نظر آتے ہیں۔

ان کے بقول لوگوں کو لگتا ہے کہ انھیں اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ یہ چیز کسی بھی اداکار کے سفر میں سب سے مشکل ہوتی ہے۔

سلمان کہتے ہیں کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کو سب سے الگ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سلمان اپنی ذاتی زندگی کو لوگوں اور میڈیا سے کتنا ہی دورکیوں نہ رکھیں لیکن میڈیا اور لوگوں کو جتنی دلچسپی ان کی فلموں میں ہے اتنی ہی ان کی ذاتی زندگی میں بھی ہے۔ اب چاہے سلمان خان کا فلمی سفر ہو یا پھر ان کی زندگی، ان کے لیے آسان نہیں رہی۔

فلمساز سلیم خان کے بیٹے ہونے کا دباؤ تو ان پر تھا ہی جس پر وہ اپنی پہلی ہی کامیاب فلم ‘میں نے پیار کیا’ کے بعد کھرے اترے لیکن اس کے بعد ان کے افیئرز اور کورٹ کیسز کے بعد جہاں ان سے کئی غلطیاں ہوئیں وہیں وقت اور حالات نے غالباً انھیں سمجھدار بھی بنایا۔ وہ کہتے ہیں ’آج میں انڈسٹری میں جس مقام پر ہیں وہ شاید ہی کبھی کسی کو نصیب ہو۔‘

ممتاز فلمساز شیام بینیگل کو حال ہی میں ممبئی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ان کی فیچر اور دستاویزی فلموں کے لیے لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ دیا گیا۔

اس موقع پر شیام بینیگل کا کہنا تھا کہ دستاویزی فلمیں اب ماضی کا حصہ بن چکی ہیں اور اب کسی کو ان میں دلچسپی نہیں ہے کیونکہ لوگ دستاویزی فلمیں پسند نہیں کرتے اور ایسی فلمیں بنانا اب گھاٹے کا سودا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی فلمیں سینیما ہال لیتے نہیں اور ان کی نمائش کے لیے کوئی خاص انتظام بھی نہیں ہے۔ آخر کار ایسی فلمیں لے کر ہمیں بیرون ممالک جانا پڑتا ہے۔

شیام بینیگل جی شاید فلسماز کبیر خان سے زیادہ متاثر نہیں جنھوں نے دستاویزی فلموں میں مصالحہ ڈال کر اسے کمرشل سینیما کے ساتھ نہ صرف لا کھڑا کیا بلکہ کروڑوں کمانے کا ہنر بھی سیکھ لیا۔

Comments
Loading...