
پارلیمنٹ کو قانون سازی پر مجبور نہیں کر سکتے، چیف جسٹس
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا ہےکہ سیکیورٹی ادارے بعض دفعہ اپنی پوزیشن سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں گردوں کی غیرقانونی پیوندکاری سےمتعلق ازخودنوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں ہوئی، دوران سماعت ڈاکٹر مرزا نقی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ خفیہ جگہوں پر گردے نکالے اور ڈالے جاتے ہیں، پیوندکاری روکنے کے لیے قومی اور مقامی سطح پرکوئی اتھارٹی نہیں جب کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر موجود اتھارٹیز با اختیار نہیں ہیں۔
اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ خفیہ جگہوں پرگردوں کی پیوندکاری کیسے روکی جاسکتی ہے؟ اس پر ڈاکٹر نقی نے کہا کہ خفیہ جگہوں پر گردوں کی پیوندکاری کو سیکیورٹی اداروں کے ذریعے روکا جاسکتا ہے۔
غیرقانونی پیوند کاری کے معاملے میں بہت پیسہ انوالو ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیکیورٹی ادارے بعض دفعہ اپنی پوزیشن سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں، غیرقانونی پیوند کاری کے معاملے میں بہت پیسہ انوالو ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ نیشنل سطح پر اتھارٹی نہ ہو لیکن مقامی سطح پر ہونی چاہیے، اگر قوانین درست ہیں تو مزید قانون سازی کی ضرورت نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ قانون سازوں کو قانون بنانے کے لیے مجبور نہیں کرسکتے، قانون یا کسی معاملے میں کمی کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔
معزز چیف جسٹس نے ڈاکٹر نقی سے مکالمہ کیا کہ اعضا عطیہ کرنے کے لیے کیا ہونا چاہیے، ہمیں تحریری طور پر دیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اعضا کی پیوندکاری کا طریقہ کار ہمیں طے کرنےکی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس نے غیر قانونی پیوندکاری روکنے کیلئے تجاویز طلب کرلیں
چیف جسٹس نے گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری روکنے کے لیے تجاویز طلب کرتے ہوئے کہا کہ گردوں کی غیرقانونی پیوندکاری میں صرف اتائی نہیں، ڈاکٹرز بھی ملوث ہیں، ہم سب کو اپنی قومی ذمہ داری ادا کرنے کی ضرورت ہے، غیرقانونی پیوند کاری کے خاتمے کے لیے شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اس ناسور کے خاتمے کے لیے تجاویز 14 مارچ تک دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 10مارچ کو ہوسکتا ہے کراچی میں سماعت نہ ہو لہٰذا اس کیس کی سماعت 17 مارچ کو کراچی رجسٹری میں ہوگی۔