
مریض کیسے روزہ رکھ سکتے ہیں؟
لاہور: دنیا بھر کے ڈاکٹروں اور ماہرین نے کئی ریسرچ مقالہ جات لکھے ہیں جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ ایک مہینہ روزہ رکھنے سے جسم کئی قسم کی کثافتوں اور بیماریوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔
جو بات آپ ﷺ نے چودہ سو سال پہلے ارشاد فرمائی، آج کے ڈاکٹر تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جب ہم کھجور سے افطاری کرتے ہیں تو چبانے کے دوران لعاب دہن میں موجود ایک انزائم ٹائلین اس کے ساتھ شامل ہو کر اجزا کو گلوکوز میں تبدیل کر دیتا ہے جس سے جسم کی فوری توانائی بحال ہو جاتی ہے۔
جسم میں گلوکوز کی کمی کا خدشہ نہیں رہتا۔ جسم میں گلوکوز کی بہت زیادہ کمی ہو جائے تو ہائپو گلائی سیمک شاک Hypoglycemic shock سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ کھجور سے افطاری کرنے سے فوری توانائی حاصل ہوتی ہے۔
معدے پر غیر ضروری بوجھ بھی نہیں پڑتا۔ کھجور کے مقابلے میں دوسری میٹھی اشیا یا ڈرنکس استعمال کرنے سے افطاری کے وقت تبخیر معدہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
شوگر کے مریض اگر روزہ رکھ رہے ہوں تو ان کے لیے کھجور سے افطار کرنا زیادہ فائدہ مند ہے کیونکہ ان میں شوگر لیول بہت زیادہ کم ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔
بعض لوگ سحری کے لیے اٹھتے ہی نہیں۔ روزہ کے لیے سحری کرنا سنت ہے۔ سحری کے بغیر روزہ رکھنا روزہ کی افادیت کو گھٹا دیتا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زور دے کر کہا کہ سحری لازمی کیا کرو۔ سحری نہ کھانے سے بندہ جسمانی کمزوری کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کا اثر جسم کے سارے افعال پر بھی پڑتا ہے۔
بغیر سحری کھائے روزہ رکھنے والے حضرات ساری کمی افطاری کے وقت پوری کرتے ہیں جو کچھ سامنے آئے اسے ہڑپ کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ اتنا کچھ کھا لیتے ہیں کہ نماز پڑھنے کی بھی طاقت نہیں رہتی۔
کولڈ ڈرنکس اور کافی
سحری میں کسی قسم کے کولڈ ڈرنکس کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ کافی لینے سے بھی معدہ میں تیزابیت پیدا ہو سکتی ہے۔ مزید براں سحری کے دوران زیادہ نمکین چیزوں مثلاً اچار اور مصالحہ دار اشیا سے پرہیز کرنا چاہیے۔
سحری کے لیے اٹھتے ہی دو تین گلاس پانی پی لیں اور اس کے بعد کھانا کھائیں۔ سحری کرتے ہی فوراً سو جانا مضر صحت ہے۔ سحری کے بعد کچھ دیر انتظار کریں۔ ہلکی سی واک کر لیں۔
قرآن پاک کی تلاوت کریں۔ نماز کے لیے مسجد جائیں اور اس کے بعد آرام کر سکتے ہیں۔ افطاری بھی اعتدال کے ساتھ ہونی چاہئیے۔ افطاری میں خوامخواہ کے نام و نہاد انرجی ڈرنکس سے پرہیز کریں۔ اس کی بجائے گھر میں بنائے ہوئے شکر شربت، شربت روح افزا وغیرہ، سکنجین، شربت تخم ملنگاں، کچی لسی کا استعمال کریں۔
سموسے اور پکوڑے
بہت زیادہ پکوڑے اور سموسے کھانے سے معدے پر اضافی بوجھ پڑ جاتا ہے۔ بھوک مر جاتی ہے اور قبض کی جاں لیوا تکلیف سے پالا پڑ جاتا ہے۔ اس لیے افطاری میں مرغن غذاؤں، کولڈ ڈرنکس اور زیادہ نمکین چیزوں سے پرہیز کریں۔
نمک کا زیادہ استعمال عمر گھٹاتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر اور بہت سے دوسرے امراض کا باعث بنتا ہے۔ آج کل افطاریوں میں اتنا کچھ ہوتا ہے کہ بندہ کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا کھائے اور کیا چھوڑے۔ کھاتے ہوئے اعتدال کو پیش نظر رکھیں۔
کھجور کی اہمیت
کھجور سے افطاری سنت بھی ہے اور جسم کے لیے فائدہ مند بھی۔ اس سے جسم کو قوت ملتی ہے۔ ہڈیوں کو مضبوط کرتی ہے۔ دو تین کھجوروں کے ساتھ شربت تخم ملنگاں یا فالسے کا شربت جسم کو فوری توانائی مہیا کرتا ہے۔
افطاری میں پھلوں اور ان کے جوس کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ انرجی اور کولا ڈرنکس سے مکمل طور پر پرہیز کریں۔ مرغن غذائوں کے ساتھ بہت زیادہ میٹھی چیزوں مثلاً کیک، پیسٹریوں، مٹھائیوں اور حلوہ جات کا کم سے کم استعمال کریں۔
رمضان المبارک کے آغاز سے مختلف قسم کے مریض پوچھنا شروع کر دیتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ہم روزہ رکھ سکتے ہیں۔ روزے سے ہماری بیماری تو متاثر نہیں ہوگی؟
بہت سی میڈیکل تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ روزہ روح کے ساتھ جسم کے لیے بھی ایک زبردست ریفریشر کورس کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے جسم کو آرام اور سکون ملتا ہے۔ جسم کے تمام اعضا خاص کر معدہ، جگر اور خون کی نالیاں بے ہنگم کھانوں کے بوجھ سے کچھ دیر کے لیے آزاد ہو جاتے ہیں۔
نیوزی لینڈ کے ایک پادری کا کہنا ہے کہ مجھے اسلام میں رمضان المبارک کے روزوں کے فلسفے نے بہت متاثر کیا۔ بہت سے لوگ اس خوف کے پیش نظر روزہ نہیں رکھتے کہ روزہ کے سبب یا روزہ کی حالت میں کہیں مرض کا غلبہ یا پیچیدگی پیدا نہ ہو جائے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
جدید میڈیکل سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ روزہ دار کے جسم میں دوسرے افراد کی نسبت قوت مدافعت (Immunity) کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور پھر دوران روزہ اندرونی اعضا کی کارکردگی میں کمی واقع ہونے کے باعث انہیں آرام مل جاتا ہے اور بعد از آرام یہ اعضا تازہ دم اور مستعد ہو جاتے ہیں۔
اس طرح ان اعضا کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کا عام سبب یہ ہے کہ اعضائے رئیسہ کو تقویت ملتی ہے۔ روزے کی اس مسلمہ افادیت کو غیر مسلم اطباء نے بھی تسلیم کیا ہے۔ بلکہ اہل مغرب مختلف امراض کے علاج میں روزہ رکھوا کر کامیاب علاج کرنے لگے ہیں۔
ڈپریشن کا علاج
غیر ملکی ماہر طیب کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنا امراض کی روک تھام کے لیے تقدم بالحفظ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر جوزف کا کہنا ہے کہ روزہ سے ظاہر وباطن کی غلاظتیں دور ہو جاتی ہیں، یعنی روزہ جسمانی و روحانی خرابیوں کا دافع ہے۔ روزہ بسیار خوری سے بچاتا ہے جس سے معدہ وجگر کا عمل درست ہوتا ہے۔اس سے فکر، ڈپریشن اور خوامخواہ کی پریشانیوں سے چھٹکارہ ملتا ہے۔
اس کے علاوہ روزہ تزکیہ النفس بھی کرتا ہے۔ تہجد کے لیے یا پھر سحری کرنے کی غرض سے جب آدمی بیدار ہوتا ہے تو اس وقت چونکہ وہ اپنی نیند پوری کر چکا ہوتا ہے اور تازہ دم بیدار ہوتا ہے اور پھر اس وقت آکسیجن وافر مقدار میں میسر ہوتی ہے جو ذہن کو تازگی اور تقویت دیتی ہے اور پھر سحری کھا لینے کے بعد جب پورے انہماک سے نماز، تلاوت یا تسبیحات میں لگ جائے تو اس وقت اسے عبادت میں لذت کا احساس ہوگا اور مذہب میں لگائو بڑھتا جائے گا۔
شوگر، بلڈپریشر اور فالج کے مریض کیا کریں
مریضوں کی تین اقسام ہیں۔ پہلی قسم میں عام بیماریوں، مثلاً کھانسی، نزلہ، زکام، خارش، ڈائریا، پیٹ درد، جسم درد، جوڑوں کے درد، کبھی کبھار بلڈ پریشر، چکر، متلی اور قے وغیرہ کی علامات اور بیماریوں کے مریض شامل ہیں۔
ایسے مریض روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ان کو کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔ روزہ رکھنے کے ساتھ ان کو اپنی دوا کی مقدار اور خوراک کا تعین اس طریقے سے کرنا ہوگا کہ دوائی کی پہلی خوراک افطاری کے فوراً بعد لیں۔
دوسری خوراک تراویح نماز پڑھنے کے بعد رات سونے سے پہلے لے لیں اور تیسری خوراک صبح سحری کے بعد لے لیں۔ ایسے مریضوں کے لیے روزہ رکھنا ضروری ہے کیونکہ روزہ رکھنے سے ان کے امراض کی علامات میں کمی ہوگی۔
دوسری قسم میں وہ مریض شامل ہیں جو پرانی بیماریوں مثلاً ذیابیطس، بلڈ پریشر، دل کی تکلیف، گردوں کی خرابی، السر اور دماغی امراض وغیرہ میں مبتلا ہیں۔
ایسے مریض بھی روزہ رکھ سکتے ہیں۔ شوگر کے مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے طریقے سے سحری کریں۔ سحری میں کھانے کے علاوہ پانی اور شربت وغیرہ کا ٹھیک ٹھاک استعمال کریں کیونکہ روزہ رکھنے سے شوگر میں کمی اور جسم میں پانی کی کمی درپیش ہو سکتی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ خاطر خواہ پانی کا ذخیرہ پیٹ میں رکھا جائے۔ شوگر کے مریض ڈاکٹر کے مشورہ سے اپنی دوا کی مقدار متعین کر سکتے ہیں۔ جو مریض دوا دن میں تین مرتبہ لیتے ہیں وہ دوا کو افطاری کے فوراً بعد، رات سوتے وقت اور سحری کے وقت لے سکتے ہیں۔
ذیابیطس شکری کے وہ مریض جو علاج کے لیے انسولین استعمال کرتے ہیں انہیں گلوکوز کنٹرول رکھنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔
انسولین استعمال کرنے والے سحری کے وقت انسولین کی مقدار کم کرکے خون میں گلوکوز کی مقدار زیادہ کر دینے کا باعث بھی بن سکتی ہے اور پھر افطاری کے وقت غیر محتاط کھانا (بسیار خوری) بھی خون بھی گلوکوز کی زیادتی کا باعث بنتا ہے۔
چنانچہ رمضان المبارک کی آمد مریض اور معالج دونوں کے لیے خون میں گلوکوز کی کمی سے خوف ہوتی ہے لیکن طب جدید کا نظریہ یہ ہے کہ خائف ہرگز نہ ہوں کیونکہ روزے مریض اور معالج کے لیے مشکلات یا کسی قسم کی دشواری پیدا نہیں کرتے بلکہ روزہ دار مریض کا شوگر لیول نارمل ہو جاتا ہے جبکہ ایسے اشخاص جو روزہ دار نہ ہوں ان کا شوگر لیول اُتار چڑھائو کا شکار رہتا ہے۔ بڑی عمر کے لوگ یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ہم تراویح پڑھ سکتے ہیں کہ نہیں۔
شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کے مریض اور تراویح
یہ مریض بیٹھ کر تراویح کی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ تیسری قسم میں وہ مریض شامل ہیں جو خطرناک جاں لیوا موذی امراض میں مبتلا ہیں۔ ان میں کینسر، فالج اور گردوں کی ناکامی وغیرہ شامل ہیں ایسے مریضوں کے لیے روزہ رکھنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم روزہ چھوڑنے کی صورت میں اسلام کے طے شدہ اصولوں کے مطابق فدیہ یا کفارہ ادار کرنا ضروری ہے۔