’بلوچستان کا بیانیہ گریٹر پلان کا حصہ تھا‘

حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے راجہ ظفر الحق کو سینیٹ کے چیئرمین کا امیدوار نامزد کر کے کر پاکستان کا دوسرا اعلیٰ ترین آئینی عہدہ پاکستان کے سب سے زیادہ محروم سمجھے جانے والے صوبے کے بجائے سب سے زیادہ وسائل رکھنے والے صوبے کے حوالے کرنے کی کوشش کی۔

یہ وہ بیانیہ ہے جس کے خوف سے مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت نے ابتدائی طور پر میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ بنوانے کا فیصلہ کیا تھا۔

لیکن اس بیانیہ کی تردید خود جب بلوچ قیادت نے کی تو صورتحال نے پلٹا کھایا۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سینیٹ چیئرمین کے انتخاب سے تین روز قبل جب یہ پالیسی بیان جاری کیا کہ سینیٹ کی سربراہی پر پہلا حق ملک کے سب سے پسماندہ سمجھے جانے والے صوبے بلوچستان کا ہے۔ اور یہ کہ بلوچستانیوں کا احساس محرومی دور کرنے کے لیے سینیٹ چیئرمین کا بلوچستان سے ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے سینیٹ میں اپنے تمام ووٹ بلوچستان سے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے سینیٹر کے نمائندے، وزیراعلیٰ بلوچستان عبد القدوس بزنجو کے حوالے کر دیے۔

عمران خان کے اس بیانیے نے مسلم لیگ ن کے اندر خطرے کی گھنٹی بجا دی۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ مسلم لیگ ن کے پاس، بلوچستان میں پچھلے ماہ پارٹی کے اندر ہوئی بغاوت کے نتیجے میں، بلوچستان سے ایک بھی سینیٹر نہیں تھا۔ اور خدشہ یہ پیدا ہوا کہ اگر انہوں نے کسی دوسرے صوبے سے لیگی سینیٹر کو چیئرمین کے لیے مامزد کر دیا تو بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ان کے اتحادی بھی شاید ان کے امیدوار کے بجائے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اس ’آزاد‘ امیدوار کو ووٹ دیں جس کی حمایت عمران خان کر چکے ہیں۔ اس کے پیچھے بیانیہ یہی کام کر رہا تھا کہ ’ن لیگ نے بلوچستان کے حق پر ڈاکہ ڈالا۔‘

تو سینیٹ چیئرمین کے لیے چناؤ کی غرض سے نواز شریف کی زیر صدارت ہوئے ن لیگ کے ابتدائی اجلاس میں یہی بیانیہ حاوی رہا۔ طے یہی ہوا کہ عمران خان جس مؤقف کو لے کر چل رہے ہیں، اسے شکست دینے کا ایک ہی طریقہ ہے مسلم لیگ بھی اپنا امیدوار بلوچستان سے لائے اور چونکہ ن لیگ میں کوئی بلوچ سینیٹر نہیں ہے تو قرعہ اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے میر حاصل بزنجو کے نام نکلا۔

حاصل بزنجو کے نام پر اتفاق تو ہو گیا لیکن اس اجلاس میں موجود بعض مسلم لیگی ذرائع کے مطابق اجلاس کے ماحول سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ یہ سب بوجھل دل کے ساتھ ہو رہا ہے۔

اس صورت میں جب باری آئی میر حاصل بزنجو کے اظہار خیال کیا تو انھوں نے جو جذباتی تقریر کی، اس نے یوں سمجھیے کہ سوچ کا دھارا بدل دیا۔

حاصل بزنجو نے کہا کہ عمران خان نے بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ لانے کے لیے جو بیانیہ جاری کیا ہے وہ مصنوعی ہے اور اس کا بلوچستان یا اس کی محرومیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے نام پر جن لوگوں کو سامنے لایا جا رہا ہے وہ صرف ’پاکستان عسکری پارٹی‘ سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی کے وفادار ہیں۔ ان لوگوں کے ذریعے بلوچستان کے نام پر سینیٹ کے ارکان کا استحصال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا راستہ روکنا ضروری ہے۔

اس موقع پر انھوں نے نواز شریف کو مخاطب کرتے کہا کہ وہ بے دھڑک مسلم لیگ ن کے کسی سینٹیر کو چیئرمین کے عہدے کے لیے نامزد کریں۔ اس کا تعلق کسی بھی صوبے سے ہو، ان کی جماعت اس سینیٹر کو چیئرمین کے لیے ووٹ دے گی۔

بات جب کھلی تو یہ بھی ذکر ہوا کہ بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ لانے کا بیانیہ کیوں اور کہاں سے شروع ہوا۔

ذکر ہوا بلوچستان میں دو ماہ قبل مسلم لیگ ن میں ہونے والی بغاوت کا۔ کہا گیا کہ اس بغاوت کا مقصد ن لیگ کو بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز سے محروم کرنا اور پھر چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے دوران بلوچستان کی محرومیوں کے ازالے کے لیے ’سینیٹ چیئرمین بلوچستان سے ہونا چاہیے‘ کا بیانیہ نشر کرنا تھا۔

اس وقت تو اس بارے میں فیصلہ نہیں ہوا لیکن ایک نئی بحث البتہ ضرور شروع ہو گئی۔ بعض رہنماؤں نے مسلم لیگ ن کے قائد سے کہا کہ اگر آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ حکومت نہیں بنا پاتی اور حاصل بزنجو کی پارٹی کا نئی حکمران جماعت سے اتحاد ہو جاتا ہے تو مسلم لیگ ن کے پاس سینیٹ کی چیئرمینی بھی نہیں بچے گی۔

بعض رہنماؤں نے خیال ظاہر کیا کہ یہی وہ ’گریٹر پلان‘ ہے جس کا آغاز بلوچستان میں مسلم لیگ ن کے اندر بغاوت سے ہوا اور انجام صادق سنجرانی کی چیئرمینی پر ہوا۔

Comments
Loading...