’امریکی صدر ٹرمپ کا شاہد خاقان عباسی کے لیے ڈو مور کا پیغام‘

مریکی نائب صدر مائیک پینس نے پاکستانی وزیر اعظم سے کہا ہے کہ ان کے ملک کو طالبان اور دیگر شدت پسندوں کے خلاف مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔

مائیک پینس یہ مطالبہ شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ایک ملاقات میں دہرایا۔

انھوں نے پاکستانی وزیرِ اعظم سے کہا کہ ان کے ملک کو طالبان اور دیگر شدت پسندوں کے سدّ باب کے لیے ’لازماً مزید‘ اقدامات کرنے ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے

’اب ’ڈو مور‘ کسی اور کو کرنا ہے ‘

طالبان سے لاتعلقی، سلامتی کا واحد راستہ؟

’چاہے سو سال گزر جائیں افغان بدلہ ضرور لیں گے‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی نائب صدر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیغام پہنچاتے ہوئے کہ شاہد خاقان عباسی سے کہا ہے کہ ’حکومت پاکستان کو اس کے ملک میں سرگرم طالبان، حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہوں کی موجودگی کے حوالے سے مزید کارروائیاں کرنا ہوں گی۔‘

امریکی نائب صدر مائیک پینس نے پاکستان پر زور دیا کہ ’وہ اس معاملے میں امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر سکتا ہے اور اسے ایسا کرنا چاہیے۔‘

پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی امریکی نائب صدر سے ملاقات کی مزید تفصیلات تاحال واضح نہیں ہیں۔

شاہد خاقانتصویر کے کاپی رائٹAFP

تاہم پاکستانی ذرائع ابلاغ نے امریکی سرکاری ذرائع کے مطابق خبر دی ہے کہ یہ ملاقات پاکستان کی درخواست پر امریکی نائب صدر کے گھر پر ہوئی۔ تاہم ان کے علاوہ کوئی بھی امریکی یا پاکستانی عہدیدار دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے دوران موجود نہیں تھا۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور امریکی نائب صدر مائیکل پینس کے درمیان ہونے والی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے افغانستان پر ‘اپنے نقطہ نظر کی وضاحت’ کی۔

یاد رہے کہ اس سے پہلے امریکی محکمۂ دفاع بھی یہ بات باور کروا چکا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے اور یہ کہ امریکہ کو بعض معاملات پر شدید اختلافات ہیں اور ان پر کام کیا جا رہا ہے۔

امریکہ نے اپنے بدلتے تیوروں کے ساتھ ساتھ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے عوض اتحادی فنڈ یعنی کولیشن سپورٹ فنڈز کی مد میں سال 2017 کی 90 کروڑ ڈالر کی امداد معطل کر دی تھی۔

ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائیاں نہ کرنے پر اس کی تقریباً تمام سکیورٹی امداد روکی گئی ہے تاکہ پاکستانی حکومت کو یہ بتایا جا سکے کہ اگر وہ امریکہ کے اتحادی نہیں بنتے تو معاملات پہلے کی طرح نہیں رہیں گے۔

اے ایف پی کے مطابق واشنگٹن کا خیال ہے کہ پاکستان نے طالبان کی حمایت ختم کرنے کے لیے بہت کم کوشش کی ہے کیونکہ اس کی سکیورٹی ایجنسی انہیں اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے۔

ادھر افغان صدر اشرف غنی نے گذشتہ ماہ افغان طالبان کو سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے انہیں امن مذاکرات کی پیش کش کی تھی۔ تاہم یہ پیشکش افغان آئین اور حکومت کی تابعداری سے مشروط تھی۔

Comments
Loading...