پاناما کیس فیصلہ: اب تو سپریم کورٹ کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں، نواز شریف

اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ پاناما کیس کے فیصلے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے جج کے ریمارکس کوئی معمولی بات نہیں، اب تو سپریم کورٹ کے اندر سے بھی آوازیں آرہی ہیں۔

احتساب عدالت میں فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ ‘میں اداروں کی عزت کرنے والا آدمی ہوں، میں نے عدلیہ کے لیے لانگ مارچ بھی کیا، لیکن جو فیصلہ آیا وہ میری اور قوم کی نظر میں ٹھیک نہیں تھا’۔

نواز شریف نے کہا کہ انہیں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کیا گیا اور وہ بھی بلیک لاء ڈکشنری کا سہارا لے کر جبکہ پاکستانی قانون میں اس کی گنجائش نہیں، ‘میں کیسے اس فیصلے کو قبول کرتا؟’

ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے بھی کہا کہ پاناما کا فیصلہ کمزور فیصلہ ہے، اب تو عدالتوں کے اندر اور باہر بھی پورے زور کے ساتھ آوازیں اٹھ رہی ہیں’۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وکلا کی جانب سے پاناما کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ‘کیا پاناما لیکس کیس کے فیصلے میں وضع کردہ اصولوں کا اطلاق سب پر نہیں ہوگا؟ پاناما لیکس کیس میں کہاں یہ اصول طے ہوا کہ غلطی جان بوجھ کر ہو یا غیر ارادی طور پر، تو اس پر نااہلیت ہوگی’۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ‘امریکی صدر کہتے ہیں کہ فلاں ریٹرنز ظاہر نہیں کروں گا اور یہاں غلطی بھی نااہلیت ہے، پاکستان میں تو الیکشن لڑنا بہت مشکل ہو گیا ہے’۔

احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے مزید کہا کہ ‘فیصلے اپنے منہ سے خود بولتے ہیں کہ فیصلہ کس طرح کا ہے، فیصلے دینے والے یہ بھی غور کریں کہ کیا ان کے فیصلے لوگوں کو قبول بھی ہوتے ہیں’۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ‘اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس طرح کے فیصلے کیوں آتے ہیں؟’

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ‘میرا واحد کیس ہے، جس میں کسی قسم کی کوئی کرپشن نہیں، میرے خلاف کیسز فیملی کے اثاثوں کے گرد گھوم رہے ہیں، ہمارے خاندان کے اثاثے 1937 سے ہیں، میں راتوں رات امیر نہیں ہوا، میرے باپ دادا کی جائیدادیں ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ایسے فیصلوں کے خلاف آفٹر شاکس آتے رہیں گے اور فیصلے کے خلاف آفٹر شاکس پر قابو پانا ناممکن ہے’۔

سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’28 جولائی کو پاکستان کے عوام کی بھی توہین ہوئی ہے، وہ کہاں جاکر توہین عدالت کا کیس کریں؟’

اس موقع پر ایک صحافی نے سوال کیا کہ ‘اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کسی جج نےآپ سے ناانصافی کی تو کیا آپ سپریم جوڈیشل کونسل جائیں گے؟’

جس پر نواز شریف نے کہا کہ ‘آپ مجھے بہت اچھا آئیڈیا دے رہے ہیں، آئیڈیا دینےکا شکریہ’۔

اس موقع پر نواز شریف نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے خلاف کیسز کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ عمران خان نے خود اعتراف جرم کیا لیکن انہیں صادق اور امین قرار دے دیا گیا، شیخ رشید نے اپنی زمین پوشیدہ رکھی، جہانگیر ترین کی کرپشن ثابت ہوئیں، لیکن کوئی ریفرنس نہیں بنا۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ‘بڑے بڑے نامور وکلاء نے کہا کہ کیسز کمزور ہیں اور فیصلہ بھی کمزور ہے،کمزور فیصلوں پر تنقید نہیں ہوگی تو پھر کیا ہوگا؟ ‘

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ‘ایسے فیصلوں کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے، جس کا مجھے بڑا دکھ ہے’۔

فلیگ شپ انویسٹمنٹ، العزیزیہ ریفرنس کی سماعت 29 مارچ تک ملتوی

اس سے قبل احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز کی سماعت کی۔

آج سماعت کے دوران گواہ نورین شہزاد عدالت میں پیش ہوئیں اور نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے گزشتہ سماعت سے جاری جرح مکمل کرلی۔

سماعت کے بعد احتساب عدالت نے پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو آئندہ سماعت پر بطور گواہ طلب کرتے ہوئے ریفرنسز پر سماعت 29 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 6 ماہ کا وقت دیا تھا تاہم اس عرصے میں سماعت مکمل نہ ہوسکی۔

احتساب عدالت کی جانب سے مزید وقت طلب کرنے پر عدالت عظمیٰ نے ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 7 مارچ کو مزید 2 ماہ کا وقت دیا تھا۔

کیس کا پس منظر

سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔

نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔

دوسری جانب العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔

نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں ان تینوں ریفرنسز کے ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے جاچکے ہیں۔

Comments
Loading...