
میڈیا کی آزادی ہی عدلیہ کی مضبوطی کی ضمانت ہے، تفتیش میں غفلت برتنے والے کو نہیں چھوڑیں گے، دس روز میں چالان عدالت میں پیش کیا جائے، چیف جسٹس کی ہدایت: سینئر صحافیوں کے اصرار کے باوجودشاہد مسعود کا معافی مانگنے سے انکار
لاہور (آن لائن)زینب قتل کیس کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نے گرفتار ملزم عمران کے 37بینک اکاﺅنٹس کا دعویٰ کرنے والے اینکر پرسن کی جانب سے ثبوت پیش کرنے میں ناکامی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی تشکیل دیدی جو صرف اینکر پرسن کے الزامات کی تحقیقات کرے گی ،جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے آئندہ کسی بھی معاملے میں کمیشن یا جوڈیشل کمیشن بنانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ اس کے لئے درخواست نہ کریں ، چیف جسٹس نے زینب کے والد اور وکیل پرمیڈیا میں بیان دینے یا پریس کانفرنس پر پابندی عائد کرتے ہوئے جے آئی ٹی کے تفتیشی عمل میں پیش ہونے کی ہدایت بھی کر دی ،چیف جسٹس آف پاکستان نے آئی جی پنجاب کو زینب کے گھر والوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ زینب ہماری بھی بچی ہے ، کیس کو خراب نہیں ہونے دیں گے ۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار، جسٹس منظور احمد ملک اور جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے از خود کیس کی سماعت کی، عدالت نے زینب کے والد کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی بیٹی زینب سے شرمندہ ہیں ہم زینب کو بچانے کےلئے کچھ نہیں کر سکے، زینب کے والد امین انصاری نے روتے ہوئے کہا کہ قاتل کو سر عام پھانسی پر لٹکایا جائے ہمیں انصاف دلایا جائے، جس پر چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پولیس تفتیش مکمل کر کے چالان جلد از جلد ٹرائل عدالت کو بھجوایا جائے، تفتیش میں کسی خامی کی کوئی گنجائش نہیں، اگر تفتیش میں کوئی خامی ہوئی تو تفتیش کار نہیں بچے گا، جوڈی ایس پی اس علاقے میں پانچ سال سے تعینات ہے اس کا سروس ریکارڈ عدالت کو فراہم کیا جائے اور بتایا جائے کہ اسے کس کے کہنے پر تعینات کیا گیا، عدالت نے زینب کے والد اور ان کے وکیل آفتاب باجوہ کو تفتیش میں شامل ہونے اورکسی قسم کی پریس کانفرنس سے روک دیا،عدالتی حکم پرسو موٹو لینے سے قبل اور بعد میں ڈاکٹر شاہد مسعود کےلئے جانے پروگراموں کی فوٹیج چلائی گئی، عدالتی استفسار پرڈاکٹرشاہد مسعود نے کہا کہ قصور سے پورنو گرافی کی 300ویڈیوز منظر عام پر آچکی ہیں،، یہ اس گینگ کو بچانا چاہتے ہیں جس کو انہوں نے پالا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو کچھ آپ نے کہا اسے ثابت بھی آپ نے کرنا ہے،اگر ڈاکٹر شاہدکی باتیں درست ہوں گی تو انہیں سرٹیفکیٹ شان سے دیا جائے گا، دعوے غلط ثابت ہوئے تو دہشت گردی، توہین عدالت یا ملکی قانون کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، شاہد مسعود نے کہا کہ اگر میری بات پہ یقین نہیں تو میں چلا جاتا ہوں یا راو انوار کی طرح فرارہو جاتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ہم آپ کو جانے نہیں دیں گے، اب ہم اپنی جے آئی ٹی بنا رہے ہیں اور آپ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیں گے، عدالت نے شاہد مسعود کے دعووں سے متعلق ڈائریکٹرایف آئی اے بشیر میمن کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دے دی،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے کہنے پر کوئی جوڈیشل کمیشن نہیں بنایا جائے گا،کمیشن اور کمیٹی معاملات کو کھوہ کھاتے ڈالنے کے لئے نہیں بننے دیں گے،چیف جسٹس نے کہا میڈیا کی آزادی ہی عدلیہ کے ادارے کی مضبوطی کی ضمانت ہے، اگر جمہوریت نہیں رہے گی تو میں اس عہدے پر نہیں رہوں گا، عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کر دی، کمرہ عدالت کے باہرحامد میرعارف حمید بھٹی،، کاشف عباسی داکٹر شاہد مسعود کو عدالت سے معافی مانگنے اور اپنا دعوی واپس لینے کے لئے رضا مند کرتے رہے تاہم ڈاکٹر شاہد مسعود کا صحافیوں کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔۔ فاضل عدالت نے شاہد مسعود کے الزامات پر تحقیقات کیلئے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی قائم کردی جبکہ پہلی جے آئی ٹی تفتیش سے متعلق اپنا الگ سے کام کرتی رہے گی ۔چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی کے لئے باقی نام بھی دیں گے۔ سماعت کے دوران ڈاکٹر شاہد مسعود نے جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمیشن بنا یا جائے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی، آپ اس پر عدم اعتماد نہ کریں۔ کوئی جوڈیشل کمیشن نہیں بنے گا بلکہ تفتیش ہوگی ۔ جوڈیشل کمیشن بنا کر معاملہ کھوہ کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے ، اب ایسا نہیں ہوگا ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو نئی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا حکم دےدیا ۔سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوے کو غلط قرار دےتے ہوئے فاضل عدالت کو آگاہ کیا کہ اسٹیٹ بنک نے بھی اپنی رپورٹ میں ملزم کے اکاﺅنٹس سے متعلق دعوے کو غلط قرار دیا ہے چیف جسٹس نے زینب کے والد کو روسٹرم پر بلاتے ہوئے کہا کہ آپ کیوں خاموش بیٹھے ہیں۔ جس پر زینب کے والد نے کہا کہ ملزم کو رحم نہیں آیا ۔ جس پر کہا کہ ہمیں آپ سے ہمدردی ہے ، زینب ہماری بھی بیٹی تھی ۔میں آپ کو اپنا نمبر دے رہا ہوں،کوئی شکایت ہو تو رابطہ کریں،میں بحیثیت ادارہ اور بحیثیت قوم آپ سے شرمندہ ہوں اور اس موقع پر چیف جسٹس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ امین صاحب آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں ، تفتیشی اداروں کے ساتھ تعاون کریں، اگر آپ کوئی مسئلہ ہوتو پریس کانفرنس کرنے کی بجائے ہمارے پاس آئیں، میرے ریڈر سے رابطہ کریں ۔چیف جسٹس سپریم کورٹ نے زینب کے والد اور ان کے وکیل کے بیانات اور پریس کانفرنس پر بھی پابندی عائد کردی۔ سماعت کے دوران آئی جی پنجاب اور جے آئی ٹی سربراہ نے رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت سے 14روز کا جسمانی ریمانڈ لیا گیا ہے ۔ فل بنچ نے استفسار کیا کہ چالان کتنے دنوں میں پیش کر دیا جائے گا۔ تفتیشی ٹیم نے 3 ماہ کی درخواست کی تاہم عدالت نے کیس کا چالان جلد از جلد جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ 90 دن کا وقت نہیں دے سکتے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا عمران ہی اصل ملزم ہے تو جے آئی ٹی نے یقین دہانی کرائی کہ عمران ہی اصل ملزم ہے۔جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ ملزم زینب سمیت آٹھ بچیوں سے زیادتی اور قتل کے مقدمات میں بھی ملوث ہے اس لئے تفتیش کیلئے وقت درکار ہے ۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہ ادارہ کسی پر ظلم نہیں کرتا،ڈی ایس پی 3سال سے تعینات ہے،بتایا جائے کس کی سفارش پر ہے،اگرزینب کیس کا مجرم بچ گیا تو افسران کو نہیں چھوڑوں گا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے زینب کے والد کے وکیل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو باربارکہاہے کہ تحریری دلائل دیں۔سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو زینب قتل کیس کی تفتیش دس روز میں مکمل کر کے چالان عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ زینب کیس کی تفتیش میں غفلت برتنے والے کو نہیں چھوڑیں گئے ۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے زینب قتل کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت آئی جی پنجاب جے آئی ٹی سربراہ ڈی جی فرانزک سمیت دیگر افسران پیش ہوئے۔ عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ تفتیش جاری ہے اور ملزم ماتحت عدالت جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ چیف جسٹس نے جے آئی ٹی کو باور کرایا کہ اس معاملے پر تاخیر نہیں چاہتے۔ جلد از جلد اس واقعہ کی تحقیقات مکمل کرکے دس روز میں چالان عدالت میں پیش کیا جائے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے زینب کے والد اور وکیل کو پریس کانفرنس کرنے اور میڈیا پر بیانات دینے پر پابندی لگادی اور مقتولہ زینب کے والد کو ہدایت کی کہ وہ جے آئی ٹی سے مکمل تعاون کریں۔ چیف جسٹس نے ڈی جی فرانزک لیبارٹری کو باور
کروایا کہ ان کی تحقیق پر بہت انحصار ہے۔ مقتولہ کے والد نے سماعت کے دوران عدالت سے استدعا کی کہ اسکی بچی کے قاتل کو سرعام پھانسی دی جائے۔سپریم کورٹ نے زینب کے قاتل کو فل پروف سیکیورٹی میں رکھنے کا حکم دے دیا، عدالت نے قصور میں 5 سال سے تعینات ڈی ایس پی سمیت دیگر افسران کا مکمل ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔ قبل ازیںسینئر صحافیوں اور اینکر پرسن نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے زینب قتل کیس میں انکشافات درست ہیں تو ٹھیک لیکن اگر نہیں تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔